بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا |
اب جبکہ امریکہ اور صہیونی ریاست نے ایران پر ایک جنگ مسلط کی ہے، اور واشنگٹن نے بین الاقوامی ایجنسی کے زیر نگرانی جوہری تنصیبات پر حملے میں سنجیدہ شراکت کی ہے، جس نے ممالک کے لئے نئی فکرمندیاں پیدا کر دی ہیں جو عالمی جوہری معاملات کے مستقبل کو سنجیدہ تزویراتی چیلنجوں سے دوچار کر سکتی ہیں۔ امریکہ، جس نے معتبر ذرائع ابلاغ کے اعتراف کے مطابق، اس وقت اس غیرقانونی اقدام کا فیصلہ کیا، وہ تہران کے ساتھ مذاکرات کر رہا تھا اور در حقیقت فریب کا منصوبہ بنا رہا تھا اور اس جارحیت کی تیاری کر رہا تھا۔ اسی بات نے چین اور شمالی کوریا جیسے ممالک کو اس تجربے کو گہری نظر سے دیکھنے اور اپنے جوہری پروگراموں کے سلسلے میں نئے رویے اپنانے پر مجبور کر دیا ہے۔ بلاشبہ، یہ معاملہ پاکستان، بھارت اور دیگر جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک سے بھی تعلق رکھتا ہے۔
اگرچہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کی نوعیت اور حد کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں اور تجزیے پائے جاتے ہیں، لیکن آج جو چیز دیرپا اور بالواسطہ اثر رکھ سکتی ہے، وہ چین اور شمالی کوریا جیسے ممالک کے لئے ایک انتباہ ہے۔ یہ ممالک، جو مغرب کے مخالف کیمپ میں شمار ہوتے ہیں، اس تجربے کو توجہ دے رہے ہیں کہ ایران، جو بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ مثالی تعاون کر رہا تھا اور اس کی ایٹمی تنصیبات بین الاقوامی ادارے کے زیر نگرانی تھیں، لیکن اس کو بے بنیاد اور غیر منطقی بہانوں پر حملے کا نشانہ بنایا گیا؛ اس کے نتیجے میں بیجنگ اور پیانگ یانگ مزید تسدیدی اقدامات اور سخت احتیاطی اقدامات اپنانے کی طرف مائل ہوں گے۔ البتہ، جوہری تنصیبات کے تحفظ کے معاملے کو سائنسدانوں اور اس شعبے کے ماہرین کی حفاظت کے ساتھ ساتھ دیکھنا چاہئے۔
ایک اور قابل غور نکتہ حفظ ما تقدم کی غرض سے پیشگی حملہ یا تسدیدی کارروائی کے لئے جواز اور دلیل کی فراہمی ہے، جسے اب سے چین جیسے ممالک بھی اپنے خلاف سامنے آنے والے معاملات میں استعمال کر سکتے ہیں۔ درحقیقت، ایران پر ہونے والی یہ غیرقانونی اور ڈھانچہ شکن (Structure breaking) جارحیت پر مبنی رویہ، تبت اور تائیوان وغیرہ جیسے معاملات میں بھی چین کے کام آ سکتا ہے۔ یہ معاملہ ابھی سے خود امریکہ میں بھی بڑی تشویش کا باعث بنا ہؤا ہے جو واشنگٹن کے اتحادی یا اس کے ساتھ تعاون کرنے والے ممالک کے لئے سنگین نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔ یہ نہ بھولیں کہ چین اور تائیوان تصادم اور تنازعے کے دہانے پر ہیں جس میں موجودہ تجربہ بیجنگ کے کام آ سکتا ہے۔
واشنگٹن میں دفاعی امور کے ماہر لیل گولڈسٹین اس بارے میں کہتے ہیں: "اس واقعے سے این پی ٹی کے فریم ورک کو شدید نقصان پہنچا ہے جس نے اپنے رکن ممالک کے لئے کچھ حقوق تسلیم کر لئے تھے، لیکن مجھے زیادہ تشویش اس بات پر ہے کہ یہ حملہ کئی دوسرے معیارات اور قواعد کو بھی ختم کر دے گا؛ جوہری ڈھانچوں پر حملے کے حوالے سے بھی اور خطراک پیشگی جارحیتوں (Preemptive Aggressions) کی ترغیب کے معاملے میں بھی۔" درحقیقت، یہ ایک ایسا چیلنج ہے جو جلد ہی، خود کو، فوجی اور جوہری طاقت رکھنے والے ممالک کے موقف میں، آشکار کر دے گا۔ اس مسئلے نے ـ اسی وقت ـ واشنگٹن میں چین اور شمالی کوریا کی ممکنہ کارروائیوں کے بارے میں بڑی تشویش کے اسباب فراہم کر دیئے ہیں، خاص طور پر اس غیر معیاری صورت حال کے تناظر میں جو امریکہ اور صہیونیوں نے پیدا کی ہے۔
کارنیگی انسٹی ٹیوشن کے محقق ژاؤتونگ کا کہنا ہے: "اس واقعے کے بعد جو اب پیش آیا ہے، مثال کے طور پر چین کو امریکہ کے اس دعوے پر بڑھتی ہوئی تشویش ہو سکتی ہے کہ فوجیان صوبے کے ری ایکٹرز میں ہتھیاروں میں استعمال کے لئے پلوٹونیم تیار کیا جا رہا ہے۔ یہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لئے طاقت کے استعمال پر آمادہ تھا، یہ ایک تسدیدی پیغام تو بھیجتا ہے، لیکن یہ شمالی کوریا اور چین جیسے ممالک کو ـ جنوبی کوریا یا جاپان میں مقامی جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کی کسی بھی سنجیدہ کوشش کے خلاف جبری اور فوجی کارروائیوں کو جواز فراہم کرنے کا بہانہ بھی دے سکتا ہے۔" اور یہ تجزیہ ایک بین الاقوامی اور سکیورٹی بے چینی کی نشاندہی کرتا ہے جو امریکہ اور صہیونی ریاست کے اقدامات کے نتیجے میں معرض وجود میں آئی ہے۔
امریکہ اور صہیونیوں کے حملے سے چین اور شمالی کوریا کے لئے سبق: کبھی اعتماد نہ کریں!
اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ سرکاری رپورٹس نو جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک (امریکہ، فرانس، برطانیہ، چین، بھارت، پاکستان، صہیونی ریاست، شمالی کوریا اور روس) کے جوہری پروگراموں کے توسیع کی نشاندہی کرتی ہیں۔ ان معلومات کو اوپر دیے گئے دو بیانات کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو مستقبل کافی تشویش انگیز نظر آئے گا۔
رینڈ انسٹی ٹیوشن میں بین الاقوامی دفاع کے سینئر محقق ٹموتھی ہیتھ کے بیان کو اس اہم موضوع کا خلاصہ سمجھا جا سکتا ہے: "حالیہ میزائل حملہ چین اور شمالی کوریا کو اپنے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو جاری رکھنے اور وسیع تر کرنے پر اکسا سکتا ہے۔ ایران پر اس لئے حملہ ہوا کہ اس کے پاس جوہری روک تھام کی صلاحیت نہیں تھی۔ اگرچہ چین پر اسی طرح کے کسی حملے کا امکان کم ہے، لیکن یہ شاید بیجنگ کو اپنے ہتھیاروں کا ذخیرہ بڑھانے اور محفوظ انتقامی صلاحیتوں کو مزید وسعت دینے کی ترغیب دلائے گا، جن میں زمین سے چلنے والے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل لانچرز، سرنگوں میں تعینات نظامات اور آبدوز جوہری میزائل شامل ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ